پاکستان میں اسلام کی خدمت
October 18, 2011 Leave a comment
برّصغیر پاک و ہند میں اسلام کی تاریخ اگرچہ پرانی ہے، لیکن اگر مسلمانوں کی کل تاریخ کا مطالعہ کیا جاےٴ تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ کویٴ اتنی پرانی بات نہیں۔ برّصغیر میں اسلام گو کہ تجارت کے ذریعے متعارف ہوا، لیکن اکثر اوقات افغانستان کےلٹیرے اور فارس کے حکمران اس خطہ میں مذہب اسلام لے کر آےٴ۔ آج جس محمود غزنوی کو بت شکن قرار دیا جاتا ہے، معلوم ہوتا ہے کے اس کا ہندوستان پر حملے کرنے کا مقصد صرف اور صرف مال و دولت اکھٹّا کرنا تھا، افغانستان کے بت اسی طرح سلامت کھڑے تھے۔
بہر حال اب جب اسلام کی جڑیں اس خطے میں مضبوط ہو گٴیں اور مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا، تب برّصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں نے اسلام میں آنے کے بعد اپنے اقدار اور ثقافت سے کنارہ کشی اختیار کرنی شروع کر دی، یہاں تک کے عرب ثقافت کو اسلامی ثقافت کا نام دیا جانے لگا۔ کچھ علماءکرام میں چند بنیادی اختلافات پر فرقہ بندیاں شروع ہوگٴیں۔ اس زمانے میں مسلمان فرقہ در فرقہ بٹتے چلے گےٴ، یہاں تک کے مسلمانوں کے فرقے ۵۰ سے بھی تجاوز کر گےٴ۔ ان فرقہ بندیوں کے نتیجے میں مسلمانوں کی مرکزی طاقت بھی بٹ گیٴ اور یکّے بعد دیگرے، ہندو اور پھر انگریز اِن پر مسلّت ہو گےٴ۔ ان دنوں سر سیّد احمد خان جیسے روشن خیال لوگ آگے بڑھے اور مسلمانوں کو تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب دی، جو کہ بہت سے علماء کے نزدیک بہت غیر مقبول ہویٴ۔ اِن عالموں کے نزدیک انگریز کی تعلیم حاصل کرنا اسلامی تعلیم کے منافی تھا۔ حالاںکہ آحضرت محمّدصلیﷲعلیہوسلّم کی حدیثِ پاک کہ علم حاصل کرو چاہے چین جانا پڑے، اس سے صاف ظاہر ہے کہ مسلمان پر ہر قسم کی تعلیم حاصل کرنا فرض ہے۔ ذرا غور تو کیجیےٴ کہ ٦ صدی عیسویں میں چین میں کونسا اسلام تھا؟ تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں چین کیمیایٴ اور فلکیاتی علوم میں ترقّی کررہا تھا۔
اب آگے آ ٴیے، تحریکِ پاکستان کے وقت تقریبًا ہر بڑے عالم نے پاکستان کی مخالفت کی۔ لیکن جب مسلمانوں کی اکثریت نے ان نام نہاد علماء کو مسترد کر دیا تب ان علماءکرام نے پاکستان پر اپنے پنجے گاڑھنے شروع کر دیےٴ۔ محمّد علی جناح کی وفات کے بعد، جناب خان لیاقت علی خان نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیےٴ پاکستان کے آ ٴین میں قراردادِ مقاصد متعرّف کروا ٴی۔ واضح رہے کہ محمّد علی جناح نے ایسی کسی قسم کی قرارداد آ ٴین ساز اسمبلی کے سامنے نہیں رکھی۔ اس قرارداد کے آنے سے علماء کیلےٴ سیاست کی ایک نیٴ راہ کھل گیٴ، مولویوں نے اپنے کارنامے دکھانے شروع کردیےٴ یہاں تک کے ١۹۵۳ کے فسادات تک نوبت پہنچ گیٴ۔ ان فسادات کے بعث لاہور میں جزوی مارشل لاء لگانا پڑا جس کے بعد پاکستانی فوج نے کیٴ مارشل لاء لگاےٴ۔
بہرکیف ١۹۷۴ بھی آگیا، جب قومی اسمبلی نے قادیانی فرقے کو اقلیّت قرار دے دیا۔ ٦ اکتوبر کو نواےٴ وقت نے اس خبر کو اس طرح رپورٹ کیا
ٰقادیانی فرقہ کو چھوڑ کر جو بھی ۷۲﴿بہتّر﴾ فرقے مسلمانوں کے بتاےٴ جاتے ہیں، سب کے سب اس مسلہ کے اس حل پر متّفق اور خوش ہیں۔
نواےٴوقت ٦ اکتوبر١۹۷۴
اس اعلامیہ کو علماء نے اجماعِ امّت کا نام دیا۔ اور یہ بھول گےٴ کے اسلام میں فرقہ بندی پر خود مہر لگا رہے ہیں۔ مزید یہ کہ مسلم علماء نے اس فرقہ بندی کو تسلیم کرکے آ ٴین کا حصّہ بنادیا گایا۔ لیکن اس وقت کے علماء کی اقتدار کی حوس پوری نہیں ہویٴ، بھٹّو کے خلاف مہم میں تمام علماء نے شمولیت اختیار کی، اور آخر میں ایک آمر جنرل ضیاءالحق کے ساتھ مل گےٴ۔ جنرل ضیاءالحق نے بھی اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیےٴ مولویوں کا سہارا لیا۔ توہینِ رسالت کے تمام تر قوانین اسی عرصہ میں متعرّف کرواےٴ گےٴ۔ جنرل ضیاءالحق نے افغان جہاد کے نام پر ان نام نہاد مذہبی جماعتوں کو پروان چڑہایا۔ افغان جہاد کے بعد ان جہادی تنظیموں کو پالنا مشکل ہو گیا، تب ان مذہبی جماعتوں نے آپس کے تعصّب کی بنیاد پر ان عسکری تنظیموں کو ایک دوسرے کے اوپر استمعال کرنا شروع کردیا۔ تب سے اب تک اس فرقہ واریت پر قابو نہیں پایا جاسکا ہے۔
مذہب کے نام پر سیاست نے اس ملک کو اس نِہج پر پہنچا دیا جہاں سے واپسی بہت مشکل ہے۔ ہمارے مذہبی رہنماوٴں نے عوام النّاس کو تعلیم سے دور جہالت کے اندھیروں میں دھکیل دیا۔ آج کے علماء نے اسلام کے نام کو جس قدر نقصان پہنچایا ہے شاید ہی کسی اور شہٴ نے پہنچایا ہو۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ممتاز قادری جیسے قاتلوں کی حوصلہ افزایٴ کرتے پھر رہے ہیں اور کویٴ پوچھنے والا نہیں۔ توہینِ رسالت پر خاکسار پہلے ہی کافی کچھ لکھ چکا ہے، لیکن ہمارا جہالت سے بھر پور معاشرہ ابھی بھی ممتاز قادری کے فعل کو اسلامی اقدار کے مطابق سمجھتا ہے۔ ﷲ اس قوم کو ہدایت دے اور ان نام نہاد علماء سے پاکستان کو نجات بخشے۔آمین